ماہِ رمضان المبارک کے آداب واحکام از : حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ

 ماہِ رمضان المبارک کے آداب واحکام

از : حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ

بعد الحمد و الصلوٰة - امابعد بوجه قرب رمضان شریف مناسب ہے کہ کچھ احکام اس کے بیان کر دئیے جائیں-یہ تو معلوم ہے کہ روزہ فرض ہے اس کے بیان کی ضرورت نہیں ایسے ہی تراویح سنّت مؤکدہ ہونے کی وجہ سے ضروری ہے،اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں۔

منکراتِ روزه
البتہ ضروری مضمون یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اس مہینہ میں کچھ منکرات بڑھا دیے ہیں اور وجہ اس کی یا تو عدم علم ہے یا قصور علم یا جانتے بھی ہیں مگر احتیاط نہیں کرتے۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں ان چیزوں کو بھی حرام کر دیا جو پہلے حلال تھیں۔کیا یہ اس بات پر دال نہیں کہ جو چیز ہمیشہ حرام ہے اس میں اور شدت زیادہ ہوجائے گی-حق سبحانہ تعالیٰ نے تو علت بیان کی روزہ رکھنے کی ( لعلکم تتقون ) روزہ اس واسطے ہے کہ تم متقی بن جاؤ۔اب ہر شخص غور کرلے کہ قبل رمضان میں اور اس رمضان میں کچھ فرق اس کی حالت میں ظاہر ہوا ہے۔اس نے نظر بد کو یا غیبت کو چھوڑ دیا یا نہیں،سو کچھ نہیں دونوں حالتیں یکساں ہیں کسی بات میں بھی کمی نہیں ہوئی-اب رہا کھانا سو اس کے بھی وقت بدل دیئے۔مقدار میں کچھ تغیر نہیں کیا۔غرض یہ کہ شارع علیہ السلام کا تو مقصد یہ تھا کہ منکرات میں کمی ہو-مگر لوگوں نے کچھ بھی نہ کیا۔اہل تحقیق تو کھانے تک میں کمی کر دیتے ہیں اس مہینہ میں بہ نسبت شعبان سے-مگر اس کی مقدار کچھ متعین نہیں ہو سکتی ہے۔جتنا شعبان میں کھاتے تھے اس سے کم کر دیا۔بعض نے بقدر لا یموت کھا کر روزہ رکھا۔جب ہی تو کچھ اثرپایا-ہمیشہ اچھی طرح کھایا ایک مہینہ عبادت کے واسطے سہی۔حاصل یہ کہ ان لوگوں نے اکل میں کمی کر دی-مگر یہ بات مندوب خواص کے لیے ہے-یہ ہر شخص سے نہیں ہو سکتا ہے مگر معاصی تو چھوڑو-خیر کھانے کے لیے جواز کا مرتکب تو ہے معاصی کے واسطے جواز بھی نہیں۔ہم برخلاف اس کے دن بھر معاصی میں مشغول رہتے ہیں بلکہ بعضے تو عصیان میں اور زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اسی کو دیکھ لیجئے کہ صبح کی نماز اس مہینے میں اپنے وقت پر ہوتی ہے یا نہیں،اس نماز کے تو وقت سے تاخیر کرنے کی عادت ہوگئی ہے-بہتیروں کی تو قضا ہوتی ہے اور قضاء نہ بھی ہوتی ہے تو اس قدر تاخیر تو ہوتی ہے جس سے جماعت فوت ہوجائے- خوش ہیں کہ ہم نے روزہ رکھ لیا،بڑا تعجب ہے کہ نماز کو چھوڑ دیا۔روزہ کیا کفایت کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مغفرت اس قدر بڑھا دیا کہ دس گنا ثواب کا وعدہ فرمادیا اور ہم اس قدر گناہ کرتے ہیں کہ حسنات باوجود اتنے بڑھائے جانے کے بھی سیئات کے برابر نہیں ہوتیں۔چاہئے تو یہ تھا کہ حسنات کی تعداد بڑھی ہوئی رہتی۔اس کو بھی جانے دیجئے برابر تو رہتی کہ پھر بھی حسنات بموجب سبقت " رحمتی علیٰ غضبی " کے غالب ہوجاتیں۔اور جب باوجود " اضعافا مضاعفه " ہونے کے بھی نیکیاں گناہوں کے برابر نہیں ہوتیں بلکہ گناہ بڑھتا رہتا ہے تو پھر کیا حشر ہونا ہے۔اچھا اس کو بھی جانے دیجئے-اگر ہمیشہ ہم اس پر قادر نہیں کہ معاصی کو گھٹادیں تو رمضان میں تو ایسا کرلیا جائے۔ جاری ہے -----

ماخوذ : تطھیرِ رمضان
ترتیب و پیشکش : فیوضِ حکیم الامت ٹیلیگرام چینل

https://t.me/ashrafurdu

Comments

Popular posts from this blog

ذکراللہ کے لئے فرصت کا انتظار نہ کرو

صحابہ سے بدگمانی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں کمی کا سبب